وہ لوگ جو کچھ روز جوانی میں ملیں گے
ہر شام وہ پھر تیری کہانی میں ملیں گے
ڈھونڈو نہ ہمیں دنیا کی رنگین فضا میں
ہم لوگ کسی یاد پرانی میں ملیں گے
حالات کی تپتی ہوئی دوپہر میں بچھڑے
یہ طے ہے کسی شام سہانی میں ملیں گے
اک خواب تُلا رہتا ہے ہجرت پہ ہمہ وقت
اک روز اسی نقل مکانی میں ملیں گے
دعوی نہیں، امید نہیں، رکھتے یقیں ہیں
ہم پھر سے اسی کوچہِِ فانی میں ملیں گے
ملنا ہے اگر ہم سے تو پڑھ لیجئے ہم کو
ہم لوگ تری آنکھ کے پانی میں ملیں گے
یونہی نہ ٹٹولو ہمیں لفظوں میں ہمارے
ہم بات نہیں بات کے معنی میں ملیں گے
جب تک غمِ مطلوب ٹھکانے نہیں لگتا
لگتا ہے سخن، شعر روانی میں ملیں گے
اک بات یہی سوچ کے سنتا نہیں دل کی
کچھ اور نئے غم ہی نشانی میں ملیں گے
ہر موڑ پہ ابرک ہمیں ہوتا ہے گماں یہ
اس موڑ پہ ہم پھر سے کہانی میں ملیں گے
یہ مصرعہِ اول تو یونہی کھینچ دیا ہے
مطلب تجھے سب مصرعہِ ثانی میں ملیں گے
…………. اتباف ابرک .