اپنے ہو کر بھی جو نہیں ملتے
دل یہ جا کر ہیں کیوں وہیں ملتے
یہاں ملتی نہیں ہیں تعبیریں
ہاں مگر خواب ہیں حسیں ملتے
ہم کو مانگا نہیں گیا دل سے
کیسے ممکن تھا ہم نہیں ملتے
یونہی بے کار ہر تلاش گئی
وہ نہیں تو چلو، ہمیں ملتے
یہ قیامت تو بس دلاسہ ہے
ملنا ہوتا انہیں یہیں ملتے
لازماً سب قصور میرا ہے
لوگ تو سب ہیں بہتریں ملتے
روز اپنے سے اعتبار اٹھے
روز وعدے ہیں پر یقیں ملتے
توبہ کتنی سمٹ گئی دنیا
ایک گھر کے نہیں مکیں ملتے
کاہے تکتی ہے آسمانوں کو
چاند تارے نہیں زمیں ملتے
سارے قصے میں وہ رہے میرے
اب ہے انجام تو نہیں ملتے
تم سے ملتے گلی گلی ، ابرک
ہم سے جوہر کہیں کہیں ملتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک