یہ بھی لازم ہے وہ بھی لازم ہے
کیسی مشکل میں ابن آدم ہے
حادثہ حادثے میں ہے مدغم
نت نیا روز ایک ماتم ہے
کیا کوئی شخص مطمئن ہے یہاں
ہر کسی کو کسی کا ہی غم ہے
جو مرے پاس وہ نہ چاہوں میں
جو نہیں پاس بس وہی کم ہے
کوئی مشکل نہیں، یہ مشکل ہے
اور مشکل ہی اس کا مرہم ہے
اور تو اور شکوہ ہے رب سے
یہ جو عالم ہے، کیا یہ عالم ہے
تیرے طوفاں کو ہے نصیب کہاں
میرے ساحل پہ جو تلاطم ہے
جس تعلق پہ جان دیتے ہیں
وہ تعلق بھی آج کم کم ہے
کس کو سمجھائیں ہم، منائیں کسے
یہاں ہر شخص ہم سے برہم ہے
جی کے بھی کب وہ جی رہا ہے یہاں
موت سے ملنے کا جسے غم ہے
یونہی گھبرا گیا ہے تو آدم
زندگی میں ابھی بڑا دم ہے
غمِ یاراں ہے اب جو لکھتا ہوں
اس میں ابرک ترا بہت کم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک