ہے موسم کی عادت گرجنا برسنا
کہیں خوش کرے یہ کہیں آزمائے
کوئی یاد کر کے کسے رو پڑے گا
یہ سوچے نہ سمجھے برستا ہی جائے
برستا ہے یکساں سبھی آنگنوں میں
سبھی آنگنوں میں نہ یہ مسکرائے
وہاں جا کے برسے جہاں زندگی ہے
یہ سب جھوٹے قصے نہ ہم کو سنائے
بڑی مشکلوں سے سلایا تھا جن کو
وہ ہر خواب رم جھم یہ پھر سے جگائے
نئی بارشوں میں نہیں بھیگنا ہے
ابھی پچھلی برکھا ہے ہم کو جلائے
…………………………………….. اتباف ابرک