آ بسے جلوے مری آنکھ میں سب محشر کے
پر سدھرتے ہی نہیں طور دلِ مضطر کے
لوگ ظاہر کی ہی فکروں میں گھلے جاتے ہیں
کس نے دیکھے ہیں یہاں روگ مرے اندر کے
نہ کوئی آس ، نہ امید ، دلاسہ باقی
بدلے بدلے سے ہیں انداز مرے مخبر کے
جو بھی آتا ہے وہ ناکام پلٹ جاتا ہے
گھر نہیں جاتے ہیں اب راستے میرے گھر کے
کوئی آئے تو بجھا دیتا ہوں دیپک سارے
یوں چھپاتا ہوں اندھیروں میں اندھیرے گھر کے
کیسے ناداں ہیں جو کہتے ہیں محبت اس کو
کچھ بھی جچتا نہیں پھر بعد میں جس منظر کے
ایسا بھٹکا تھا میں اک بار نہ واپس آیا
اب نکلتا ہی نہیں میں کبھی گھر سے ڈر کے
یوں تو مٹی کے ہیں سب لوگ جہاں فانی میں
بس مرے واسطے بن جاتے ہیں سب پتھر کے
دیکھتا ہوں میں قیامت کا بھی روشن پہلو
چلو دیکھیں گے وہاں پھر سے انہیں جی بھر کے
رات اور دن کا گزرنا نہیں جینا ابرک
جینا ان کا ہے جو زندہ ہیں یہاں پر مر کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔