ہار سے بھی امید لیتے ہیں
جیتنے کی نوید لیتے ہیں
زندگی زہر بھی ہے شہد بھی ہے
ہم پہ ہے کیا کشید لیتے ہیں
کتنے احساس لفظ ہیں رکھتے
ہم ہی مطلب شدید لیتے ہیں
خود کو مہنگا کیا بہت لیکن
لوگ پھر بھی خرید لیتے ہیں
غم گساری نہ تو سمجھ لینا
سب یہ مخبر ہیں، بھید لیتے ہیں
اپنے وعدوں سے مکر ہیں جاتے
ہم سے پہلے رسید لیتے ہیں
دل ہے بے کار اب یہ سینے میں
بیچ کر کچھ مفید لیتے ہیں
غم سے دنیا کنارہ کرتی ہے
آپ ابرک مزید لیتے ہیں
……………………….اتباف ابرک