وہ ہم کو دل میں رکھے گا یا دل سے اب نکالے گا
اٹھے گا جب تلک پردہ تجسس مار ڈالے گا
میں اکثر جانچنے کو یہ بس اپنا حق جتاتا ہوں
کہاں تک بات مانے گا کہاں پر ہم کو ٹالے گا
کہاں ممکن تعین ہے ، تعلق کا رویوں سے
یقیں ہم پر ہے اس کو زخم سب چپ چاپ کھا لے گا
محبت کی ڈگر پر جو بھی نکلے سوچ کر نکلے
سفر یہ وہ نہیں ہے جو یہاں منزل بھی پا لے گا
کبھی سوچا گیا جو تھک کے دل کی وا گزاری کا
سوال اٹھا یہی, مصروفیت کیا اور پالے گا
چلن اہلِ وفا کا ہے اٹل خاموشیاں ابرک
زمانہ دیکھتا ہے سب، وہ خود قصہ اچھالے گا
اتباف ابرک……………………..