منزلوں سے بھی ہوں گزر آیا جا رہا تھا کدھر ، کدھر آیا ایک بس موڑ مڑ گیا تھا غلط پھر نہ رستہ ملا نہ گھر آیا سب کی راہوں میں منزلیں آئیں میرے حصے فقط سفر آیا کوئی طوفاں، وبا، عذاب اترا سب سے پہلے وہ میرے در آیا…
رستوں سے کیا گلہ ہے جو منزل یہاں نہیں جس پار تھا اترنا وہ ساحل یہاں نہیں مانا وہی ہے شہر، وہی بھیڑ بھاڑ ہےجس کو مری تلاش وہ محفل یہاں نہیں لازم ہمی پہ کیوں ہے، ہر اک خواب دیکھناکیوں ہم کسی کے خواب کا حاصل یہاں نہیں ممکن کہاں…
عمر اس راہ پر فنا کی ہے جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے یاد کر کر کے تلخ باتوں کو زندگی خود سے بے مزا کی ہے ایک تو لوگ نا قدر سارے اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے پوچھنا حال دنیا داری ہے کس نے…