عمر اس راہ پر فنا کی ہے جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے یاد کر کر کے تلخ باتوں کو زندگی خود سے بے مزا کی ہے ایک تو لوگ نا قدر سارے اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے پوچھنا حال دنیا داری ہے کس نے کس کی یہاں دوا کی ہے اور تو اور خود سے نالاں ہوں ہر تعلق میں ہی خطا کی ہے مجھ سے ملنے کو تم نہ آیا کرو آئینے...
Layout A (with pagination)
آ بسے جلوے مری آنکھ میں سب محشر کے پر سدھرتے ہی نہیں طور دلِ مضطر کے لوگ ظاہر کی ہی فکروں میں گھلے جاتے ہیں کس نے دیکھے ہیں یہاں روگ مرے اندر کے نہ کوئی آس ، نہ امید ، دلاسہ باقی بدلے بدلے سے ہیں انداز مرے مخبر کے جو بھی آتا ہے وہ ناکام پلٹ جاتا ہے گھر نہیں جاتے ہیں اب راستے میرے گھر کے...
قصور کوئی زمانے، سماج کا کب تھا یہ بدنصیب ہی تیرے مزاج کا کب تھا تو خود ہی سوچ مخالف ہوا نہ کیسے ہو کہ میرا ایک عمل بھی رواج کا کب تھا یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو سوال میرا کسی تخت و تاج کا کب تھا گئے دنوں کو میں سر پر اٹھائے پھرتا ہوں تمہارے بعد کسی کام کاج کا کب تھا مرض سے کیسے...
جو نہ ہوتا ہے وہ دکھاتا ہوں اپنے کرتوت سب چھپاتا ہوں دل ہی دل خوب مسکراتا ہوں خود کو خادم میں جب بتاتا ہوں سیہ لگنے لگے سفید مرا بات اس طور سے گھماتا ہوں روپ لیڈر کا پر لٹیرا ہوں بس نقابوں میں سج کے آتا ہوں لوٹتا ہوں میں اس صفائی سے چور کا شور خود مچاتا ہوں جب بھی آئیں چناو کی گھڑیاں...
ابھی آنکھوں میں ہے وہی منظر
ابھی ہیبت بھی دل پہ طاری ہے
بارشیں موڑ لو مرے گھر سے
ابھی برسات پچھلی جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک
Share with your friendsTweetWhatsApp