میر کی ہم کو غزل لگتا ہے
چاند تاروں کا بدل لگتا ہے
میں کہ انبار مصائب کا ہوں
ہر مصیبت کا تو حل لگتا ہے
ہم کو اک تیرے سوا دنیا کی
باقی ہر شے میں خلل لگتا ہے
تو ہی تو عمرِ رواں ہے میری
اور سب گزرا سا کل لگتا ہے
ہم کو ابرک ہے وہ ایسے، جیسے
کسی مچھلی کو یہ جل لگتا ہے
…………….. اتباف ابرک