دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں
ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں
وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں
اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا
ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں
سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا
جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں
جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری
ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں
درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے
بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں
کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی
اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں
کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر
ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے
کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں
ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں
دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا
لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں
فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم
تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں
ہم بھی ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں
اور اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔