اک اسی بات کا تو رونا ہے
چاہئے وہ کہ جو نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک
Share with your friendsTweetWhatsApp
Layout C (with load more button)
بخش دیتا ہے وہ خطاؤں کو ہاتھ اٹھتے ہیں جب دعاؤں کو دل سے گرتا ہوں جب میں سجدوں میں دور کرتا ہے سب بلاؤں کو میں پرندہ ہوں تھک بھی جاتا ہوں پر لگاتا ہے...
(اک نظم ……… امید پیہم کے نام) ارے ناداں! امید قائم رکھ اب بہاروں کو لوٹ آنا ہے خود اجاڑا ہے جو چمن ہم نے اسے گلزار پھر بنانا ہے گل...
کچھ یوں کرو کہ آئے وہ مہماں ابھی ابھی یا یہ کرو کہ جائے مری جاں ابھی ابھی جھیلا ہے تجھ کو زندگی کچھ اس یقین سے ہونے لگی ہے جیسے تو آساں ابھی ابھی پھر...
زندگی آدھی ہے، ادھوری ہے تیرا آنا بہت ضروری ہے سامنے تو ہے لمحہ لمحہ مرے اور زمیں آسماں کی دوری ہے کوئی منطق، کوئی دلیل نہیں تو ضروری تو بس ضروری ہے...
آنکھ تم کو ہی جب نہ پائے گی عید کیسے منائی جائے گی چاند کافی نہیں ہے میرے لئے تیرے آنے پہ عید آئے گی زندگی لاکھ توڑ لے مجھ کو تو نہ امید توڑ پائے گی...