پوری میں اپنی بات کروں مختصر کروں
دل کا تو ہے خیال کہ میں عمر بھر کروں
پاتا ہے ساتھ کون ترے منزلیں کبھی
آوارگی، میں پھر بھی تجھے ہمسفر کروں
کس بے رخی سی ہم کو گزارے ہے زندگی
مل جاؤ چار پل تو میں تم کو خبر کروں
مقصد کوئی تو ہوتا ہے کارِ حیات کا
کب تک میں بے وجہ یونہی شام و سحر کروں
چاہا بہت ہے میں نے کہ منظر بدل سکوں
تم ہی نظر میں آو میں جس پر نظر کروں
ممکن نہیں ہے مانا یہ کوشش تو آ کریں
تم بن پرند آو میں خود کو شجر کروں
جب طے ہے کوئی اور ٹھکانہ نہیں مرا
تیرے خیال خواب کو اپنا میں گھر کروں
انہونی کوئی ایسی بھی خواہش نہیں مری
جب تک یہ زندگی ہے تمہی کو بسر کروں
خوشبو کی بات ہے یہ محبت کی بات ہے
ورنہ ادھر کی بات میں کاہے ادھر کروں
ابرک لکھا بہت ہے یہ حسرت مگر رہی
کوئی تو بات میں بھی کبھی با اثر کروں
…………………… اتباف ابرک
٢٢ اپریل ٢٠١٩