ہوا کے دوش پر اب تک دہائی دیتی ہیں
پرانی دستکیں اب تک سنائی دیتی ہیں
قفس کو توڑنے کی جستجو میں گزری ہے
وہ بیتی گھڑیاں مگر کب رہائی دیتی ہیں
نکل تو سکتا ہوں اسکی گلی سے میں لیکن
وہاں سے آگے نہ راہیں سجھائی دیتی ہیں
تو کیسے مانوں دلیلیں میں عقل کی سوچو
کسی کی یادیں جو پل پل صفائی دیتی ہیں
اس انتظار کو جب جب سمیٹا ہے ہم نے
بدن سے سسکیاں، آہیں سنائی دیتی ہیں
کسی کہانی کا کردار سوچ کر بنئے
حسیں کہانیاں اک دن جدائی دیتی ہیں
ہے بات بات میں منظر کشی اندھیروں کی
تمہاری آنکھیں تو روشن دکھائی دیتی ہیں
شکر گزار ہے ابرک ہجر کی راتوں کا
مرے وجود کو مجھ تک رسائی دیتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔