مستقل ہو نہ ہو ، ادھار ملے دل کی حسرت کو کچھ قرار ملے دو گھڑی ہی سہی چلے آؤ غم کو پھر سے ذرا نکھار ملے ہم کہ سمجھے تھے خود کو ہی یکتا راہ میں ہم سے بے شمار ملے...
Layout B1 (with infinite scroll)
عمر اس راہ پر فنا کی ہے جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے یاد کر کر کے تلخ باتوں کو زندگی خود سے بے مزا کی ہے ایک تو لوگ نا قدر سارے اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے پوچھنا...
آ بسے جلوے مری آنکھ میں سب محشر کے پر سدھرتے ہی نہیں طور دلِ مضطر کے لوگ ظاہر کی ہی فکروں میں گھلے جاتے ہیں کس نے دیکھے ہیں یہاں روگ مرے اندر کے نہ کوئی آس ،...
قصور کوئی زمانے، سماج کا کب تھا یہ بدنصیب ہی تیرے مزاج کا کب تھا تو خود ہی سوچ مخالف ہوا نہ کیسے ہو کہ میرا ایک عمل بھی رواج کا کب تھا یہی تو چاہا تھا بس سانس...