عمر اس راہ پر فنا کی ہے
جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے
یاد کر کر کے تلخ باتوں کو
زندگی خود سے بے مزا کی ہے
ایک تو لوگ نا قدر سارے
اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے
پوچھنا حال دنیا داری ہے
کس نے کس کی یہاں دوا کی ہے
اور تو اور خود سے نالاں ہوں
ہر تعلق میں ہی خطا کی ہے
مجھ سے ملنے کو تم نہ آیا کرو
آئینے تک نے التجا کی ہے
یہ بھی لکھا گیا قصور مرا
کہ محبت میں انتہا کی ہے
جاں قفس میں ہے اپنی مرضی سے
قید سے کب کی یہ رہا کی ہے
کیا دعا کرتے جب یقیں ہی نہیں
یہ دعا کی یا بد دعا کی ہے
جس سے کرنا کنارہ تھا ابرک
تم نے ہر شے وہ آشنا کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔