نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی
نہ ذات اب ہے یہ ذات اپنی
وہ آئے، بیٹھے ، اٹھے، گئے وہ
تھی مختصر کیا حیات اپنی
تھی گفتگو سب نظر نظر میں
تو کیا چھپاتا میں بات اپنی
ہنسی، تبسم ،وہ مسکراہٹ
وہ لے گیا سب صفات اپنی
وہ ایک اپنا ہے یوں مقابل
کہ جیت میں بھی ہے مات اپنی
عجیب پھندے میں زندگی ہے
نہ جانے کب ہو نجات اپنی
کیا ضرورت ہے دشمنوں کی
لگائے بیٹھا ہوں گھات اپنی
سمجھنا، ابرک کو صرف آدم
کہ آدمیت ہے جات اپنی
……………………………اتباف ابرک