اک اُسی کو دھیاں نہیں ہوتا
جس کے بن یہ جہاں نہیں ہوتا
اس محبت میں یہ خرابی ہے
جو جہاں ہے وہاں نہیں ہوتا
ڈھونڈھئے گا کہاں کہاں اس کو
جانے والا کہاں نہیں ہوتا
آگ ایسی کہ راکھ راکھ بدن
ظرف اتنا ، دھواں نہیں ہوتا
جانے کیا بھیڑ ہے مرے اندر
لہو تک اب رواں نہیں ہوتا
کچھ بھی کر لیجئے مگر بندہ
آپ سے بد گماں نہیں ہوتا
صرف ہم تب تلک نبھائیں گے
جاں کا جب تک زیاں نہیں ہوتا
در و دیوار سے لپٹتے ہیں
جب کوئی راز داں نہیں ہوتا
تم پہ گزری ہے تم کہو ابرک
ہم سے آگے بیاں نہیں ہوتا
…………………….. اتباف ابرک