جو تم چاہتے ہو وہی چاہتا ہوں
خوشی بس تری ہی خوشی چاہتا ہوں
ابھی پاس آؤ ابھی چاہتا ہوں
میں پھر فاصلوں میں کمی چاہتا ہوں
یہ تم سے ملاقات ہے اک بہانہ
وجہ جینے کی بس کوئی چاہتا ہو ں
شروعات تم سے ختم تم پہ ہوں جو
شب و روز سارے وہی چاہتا ہوں
کرم، امتحاں وہ تب و تاب تیرے
سبھی یاد ہیں وہ سبھی چاہتا ہوں
ہوئے خشک ہیں جو جدائی میں سارے
میں ان آنسووں میں نمی چاہتا ہوں
نبھانا جہاں سے کہاں اب ہے ممکن
کسی اور کو ہر گھڑی چاہتا ہوں
یہی التجا اپنے رب سے ہے ابرک
اندھیرا ہوں میں, روشنی چاہتا ہوں
……………..اتباف ابرک