(اک نظم ……… امید پیہم کے نام)
ارے ناداں! امید قائم رکھ
اب بہاروں کو لوٹ آنا ہے
خود اجاڑا ہے جو چمن ہم نے
اسے گلزار پھر بنانا ہے
گل ہیں اب جو چراغ راہوں کے
انہیں منزل تلک جلانا ہے
جو لہو رنگ سارے قصے ہیں
انہیں خوشبو سے پھر لکھانا ہے
قول اور فعل ایک سے کر کے
جو کہا، کر کے وہ دکھانا ہے
سارے جذبے جو آج مردہ ہیں
ان میں اک روح کو بسانا ہے
میل کرنے ہیں صاف سب دل کے
نفرتوں کو بھی اب بھلانا ہے
چار سُو ہیں جو ماتمی چہرے
ان میں رنگِ حیات لانا ہے
آج تک آنکھ غم ہی روئی ہے
اسے خوشیوں سے اب رلانا ہے
سن اے تو ارضِ پاک کے دشمن
تجھے دھرتی سے اب مٹانا ہے
جن عذابوں کو عمر بھر سینچا
ان کو راہِ عدم دکھانا ہے
یہ وطن ہے ہمارا گھر ابرک
اب اسے مل کے پھر سجانا ہے
……………………..